شاعر مشرق، مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال کی 83 ویں برسی

IQNA

شاعر مشرق، مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال کی 83 ویں برسی

17:08 - April 21, 2021
خبر کا کوڈ: 3509177
عاشقِ رسول،قاری قرآن ،مفکر پاکستان، قومی شاعر، ترجمانِ حقیقت ،حکیم الامت اور دانائے راز حضرت علامہ محمد اقبال کے آخری ایام فکر امت میں گزرے۔
شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی 83 ویں برسی عقیدت و احترام سے منائی جارہی ہے، آپ نے 1930 میں ایک علیحدہ وطن کا خواب دیکھا اور اپنی شاعری سے برصغیر کے مسلمانوں میں بیداری کی نئی روح پھونک دی۔
عاشقِ رسول،مفکر پاکستان، قومی شاعر، ترجمانِ حقیقت ،حکیم الامت اور دانائے راز حضرت علامہ محمد اقبال زندگی کے آخری ایام میں سخت بیمار ہو گئے۔ کئی امراض نے گھیر لیا۔ پاؤں کا درد‘ آنکھ کی تکلیف‘ ضعف قلب اور بہت کمزور ہو گئے۔ بیماری کی حالت میں رات کافی دیر تک جاگتے اور روتے رہتے ۔کسی نے رونے کی وجہ پوچھی تو فرمایا 
’’خدا جانے مسلمان قوم کا کیا حشر ہوگا‘‘
 جب بیماری میں شدت آ گئی تو صبح کی تلاوت چھوٹ گئی۔ آپ کسی سے قرآن مجید پڑھوا کر سن لیتے۔ اس دوران آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری رہتے۔
 
 
20 اپریل 1938 ء کی شب آپ کے پاس میاں محمد شفیع‘ ڈاکٹر عبدالقیوم اور راجہ حسن اختر کے علاوہ عقیدت مندوں کی خاصی تعداد موجود تھی۔ شب 2 بجے جاوید اقبال کمرے میں آیا تو پوچھا کون ہے؟ اس نے کہا ’’جاوید ہوں‘‘ آپ نے فرمایا جاوید بن کر دکھاؤ‘ چودھری محمد حسین سے مخاطب ہو کر فرمایا ’’اسے جاوید نامہ کے آخر میں وہ دعا "خطاب بہ جاوید" ضرور پڑھوائیے۔ شانون میں درد ہونے لگا تو علی بخش کو شانے دبانے کیلئے کہا پھر اچانک لیٹے لیٹے پاؤں پھیلا دئے ۔ اوپر کی طرف آنکھیں اٹھائیں پایاں ہاتھ دل پر رکھا اور دائیں ہاتھ سے سر کو تھامتے ہوئے کہا ’’ﷲ‘‘ اس کے ساتھ ہی سر پیچھے کی طرف ڈھلک گیا اور قبلہ رو ہو کر آنکھیں بند کر لیں۔ 21 اپریل 1938 ء صبح 5 بجکر 14 منٹ پر آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ وفات سے 10 منٹ پہلے آپ نے فرمایا
 
 
 
سرودِ رفتہ باز آید کہ ناید
نسیمے از حجاز آید کہ ناید
سرآمد روزگارِ ایں فقیرے
دگر دانائے راز آید کہ ناید
 
آپ کے وصال کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ۔ اخبارات کے ضمیمے چھپے۔ سرکاری دفاتر‘ سکول‘ کالجز‘ عدالتیں‘ اسلامی مدرسے‘ بازار سب بند ہو گئے۔ لوگ ہجوم در ہجوم جاوید منزل کی طرف رخ کرنے لگے۔ ہزاروں لوگوں نے چہرے کا آخری دیدار کیا۔ تجہیز و تکفین سے متعلق گفتگو ہونے لگی۔ اہم بات یہ تھی کہ علامہ اقبال کی تدفین کہاں ہو۔ چودھری محمد حسین کی تجویز تھی کہ علامہ اقبال کو شاہی مسجد کے حجرے میں دفن کیا جائے۔ چنانچہ وہ اور میاں نظام الدین‘ میاں امیرالدین‘ سید محسن شاہ‘ خلیفہ شجاع الدین‘ مولانا غلام رسول مہر اور عبدالمجید سالک شاہی مسجد گئے۔ تمام حجروں کا معائنہ کیا مگر اس نتیجہ پر پہنچے کہ کسی حجرہ کی بجائے مسجد کے صدر دروازے کے قریب خالی جگہ پر تدفین ہو۔ اس کی منظوری لینا بہت اہم تھا۔ چنانچہ علامہ اقبال کے پانچ دوستوں نے گورنر ہنری کریک سے ملاقات کی۔ دوپہر تک مجوزہ قطعہ زمین کی اجازت ہو گئی۔ چار بجے تک تمام کارروائی مکمل ہو گئی۔ پانچ بجے شام جاوید منزل سے آپ کا جنازہ اٹھا۔ جنازے کے ساتھ لمبے لمبے بانس باندھے گئے تھے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ کندھا دے سکیں۔ وزرائے حکومت‘ اعلیٰ حکام‘ عدالتوں کے جج‘ وکلائ‘ کالجز کے پروفیسرز‘ اساتذہ‘ طلبائ‘ شعرائ‘ ادبائ‘ مشائخ ‘ علمائ‘ تجار غرضیکہ عام فرزندان اسلام چشم گریاں جنازہ کے ساتھ جا رہے تھے۔ اسلامیہ کالج کے وسیع گراؤنڈ میں تقریباً 20 ہزار مسلمان موجود تھے۔ مولانا غلام مرشد نے نماز عشاء سے قبل 8 بجے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ پونے 10 بجے شب شاہی مسجد لاہور کے صدر دروازے کے قریب آپ کو سپرد خاک کر دیا گیا۔ اس طرح سیالکوٹ سے طلوع ہونے والا علم و ادب‘ فکر و تصوف اور شعر و ادب کا روشن ستارہ لاہور کی مٹی کو عزیز ہو گیا۔ روزانہ سینکڑوں افراد آپ کی آخری آرام گاہ پر آتے ہیں اور دعائے مغفرت کرتے ہیں۔
نظرات بینندگان
captcha