ایکنا نیوز- هر انسان زندگی میں ناکامیوں کا تجربہ کرتا ہے اور کبھی اس شدت سے مایوس ہوتا ہے کہ بے چینی کی حالت میں تمام راستے اس پر بند ہوجاتے ہیں اور نوبت خودکشی تک پہنچ جاتی ہے۔
ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کیونکہ «جس سے بھی امید کی جاتی ہے نا امید ہوجاتے ہیں»، ، «بڑی مصیبت میں گرفتار ہوتے ہیں»، «ذلت بار رسوائی اٹھانی پڑی»، «مهلت تھی میں نے سنجیدہ نہ لیا»، «ذلیل ہوا»، «مجھے معاف نہ کیا رسوا کیا» و...
اس طرح کی حالت میں شدید مایوسی اور مشکلات و مصائب میں جہاں ہر طرف تاریکی اور مایوسی کے بادل چھا جاتے ہیں دل سے آواز نکلتی ہے کہ ایک ہستی سے کہے:
«تمھارا لطف و کرم اس سے بالاتر ہے کہ میری غلطیوں کو پکڑ لے اور مجھے ذلیل کرے گرچہ میں نے شرم وحیا کا دامن نہ تھاما، مجھ سے بدحال کون ہے؟ مجھے مزید رسوا نہ کر، اگر میں اعمال کے نتیجے پر غور کرتا تویوں نہ ہوتا مگر توبخشنے والا مہربان ہے اور یقین ہے کہ تو عذاب میں جلدی نہیں کرتا.»
اس طرح کس ہستی سے مخاطب ہوا جاسکتا ہے؟ ان جسیے جملوں کو سال 714 میں امام زینالعابدین(ع) ایک دعا میں فرماتے ہیں اور مزید کہتے ہیں:
«بچپن میں نعمت دی اور جب بڑا ہوا مجھے عزت دی. اور موت کے بعد اس سے بہتر نعمت کی نوید دی. میری شناخت تجھ سے ہے، رہنما تو ہے اور تجھ سے وابستگی میری نجات ہے جس زبان سے گناہ کیا اس س تجھ سے راز کہتا ہوں، خوف زدہ اور امیدوار، اس دل سے تجھ سے طلب کرتا ہوں جس سے خیانت کی ہے۔
اے پروردگار! اپنے گناہوں سے ڈرتا ہوں اور تیری بزرگواری سے امیدوار، اگر بخش دے تو تیری مہربانی اور اگر عذاب کرے تو ظلم نہ کیا، میرا ذخیرہ شرمندگی اور بے شرمی ہے مگر تیری مہربانی سے امید کہ تو نا امید نہیں کرتا، پس تو مجھے نا امید نہ کر اور میری دعا سن لے اے بہترین سننے والا۔
اس رب کی ستائش کرتا ہوں جو بردبار ہے اس طرح سے سلوک کرتا ہے کہ گویا میں نے گناہ ہی نہیں کیا ہے اور اے رب تیری جانب سارے راستے کھلے دیکھتا ہوں، اور تجھ سے مانگنے میں رکاوٹ نہیں دیکھتا ہوں اوریقین ہے کہ انسان کو سنتا اور قبول کرتا ہے۔...».
امام سجاد(ع) امام حسین(ع) کے فرزند نامدار ہیں اور دعا ابوحمزہ کے نام سے انسان کو تاریکیوں اور مایوسیوں سے رہائی کی جانب سے امیدوار کرتے ہیں۔/