ایکنا نیوز- جنت میں آدم و حوا کی سکونت کے بعد خدا نے ان سے کہا کہ جو نعمت کھانا چاہو کھالو مگر اس درخت کے پاس نہ جانا ورنہ ستم کاروں میں سے ہوجاوگے: «... وَلَا تَقْرَبَا هَٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ» (بقره: 35). تاہم شیطان نے انکو فریب دیا اور انہوں نے اس درخت سے کھالیا اور اس نافرمانی کی وجہ سے انکو جنت سے نکل کر زمین پر جانے کا حکم دیا گیا، اس آیت کے علاوہ دو اور آیات بھی اس حوالے سے موجود ہیں (اعراف: ۱۹؛ طه: ۱۲۰).
قرآن میں اس بارے میں واضح نہیں کہ وہ کس فروٹ کا درخت تھا تاہم روایات اور تفاسیر میں دو اہم نکات موجود ہیں:
بعض دیگر روایات میں اس سے سیب کا درخت لیا جاتا ہے جو مغربی ثقافت سے متاثر شدہ ہے اور یہاں پر سیب کو آدم کے لیے وسوسے کی سمپل سے جانا جاتا ہے، تاہم اسلامی روایات میں سیب کی بات نہیں، البتہ بعض روایات جوائمه(ع) سے نقل شدہ ہے جب ان سے پوچھا جاتا تھا تو انکا کہنا تھا: قیامت میں مومن کے اختیار میں سب کچھ ہے ایسا نہیں کہ ایک درخت سے صرف ایک فروٹ ملے بلکہ جوکچھ طلب کیا جایے وہ دے سکتا ہے۔
«درخت حسد» یا ایک قسم کی رقابت کا درخت لیا جاتا ہے، البتہ ایسا حسد نہیں جو گناہ کے معنی میں ہو. آدم(ع) از آدم کو انکی نسل میں اولادوں سے باخبر کیا گیا اور انہوں نے دیکھا کہ انکی بعض اولاد رتبے میں ان سے برتر ہے تو اس نے آرزو کی کہ وہ ایسا ہوتے اور یہی «آرزو» نے انکو جنت سے نکالا اور ممنوعہ درخت اسی کو کہا جاتا ہے۔/